امریکا نے 1960ء کی دہائی میں نہرِ سوئز کے مقابلے پر اسرائیل میں ایک دوسری نہر کا منصوبہ بنایا تھا جو 520 نیوکلیئر بموں کا استعمال کر کے کھودی جاتی۔
اس ناقابلِ یقین، اور ناقابلِ عمل، منصوبے کا پہلی بار علم تب ہوا جب 1996ء میں ایک خفیہ دستاویز منظرِ عام پر آئی جس کے تحت امریکا نے بحیرۂ احمر اور بحیرۂ روم کو ملانے کے لیے صحرائے نقب سے ایک نہر کھودنے منصوبہ بنایا تھا۔ یہ منصوبہ حقیقت کا روپ تو نہیں دھار پایا لیکن ایک ایسے وقت میں اس کی باتیں ضرور منظرِ عام پر آئی ہیں جب نہرِ سوئز میں ایک کارگو جہاز پھنسنے کی وجہ سے دنیا کا یہ اہم ترین تجارتی راستہ بند ہو چکا ہے۔
اس منصوبے کے حوالے سے بنائی گئی یادداشت میں اسے "صحرائے نقب میں ‘نہرِ بحیرۂ مردار’ کی کھدائی کے لیے نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال” کا نام دیا گیا تھا۔ مؤرخ ایلکس ویلرسٹائن نے ٹوئٹر پر بتایا ہے کہ یہ منصوبہ آج نہرِ سوئز میں درپیش صورت حال سے نمٹنے کا ایک مجوزہ حل رکھتا ہے۔
Modest proposal for fixing the Suez Canal situation https://t.co/QA3hYABeU6
— Alex Wellerstein (@wellerstein) March 24, 2021
یہ یادداشت دراصل امریکی محکمہ توانائی کے تحت چلنے والی لارنس لیورمور انٹرنیشنل لیبارٹری نے تیار کی تھی۔ اس میں اسرائیل میں 160 میل طویل نہر کھودنے کے لیے ‘نیوکلیئر کھدائی’ کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ جس کے مطابق نہروں کی کھدائی کا روایتی طریقہ انتہائی مہنگا ہے اور نیوکلیئر دھماکے اس صورت میں منافع بخش متبادل پیش کر سکتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ مجوزہ نہر نہرِ سوئز کا کارآمد متبادل ثابت ہوگی اور معاشی ترقی میں نمایاں حصہ ڈالے گی۔
قیمت کا اندازہ لگانے کے لیے اس یادداشت میں بتایا گیا ہے کہ کھدائی کے لیے ہر میل پر 2 میگا ٹن کے چار بم درکار ہوں گے جو ویلرسٹائن کے مطابق 520 بم یا 1.04 گیگا ٹن دھماکا خیز مواد بنتا ہے۔ یہ مجوزہ نہر صحرائے نقب سے گزرتی اور بحیرۂ روم کو خلیج عقبہ سے جوڑ دیتی اور یوں بحیرۂ احمر اور آگے بحرِ ہند تک رسائی فراہم کرتی۔
Livermore report from 1963 on the feasibility of excavating of a canal through Israel's with 2 Mt nuclear devices, spaced at 4 per mile for 130 miles = 520 nukes = 1.04 Gt of explosives! "Another problem which has not been considered is that of political feasibility…" 😬 pic.twitter.com/QECj5JCrEu
— Alex Wellerstein (@wellerstein) February 13, 2018
لیبارٹری کا کہنا تھا کہ اس میں 130 میل کا علاقہ تقریباً غیر آباد صحرا پر مشتمل ہے اس لیے یہاں ‘نیوکلیئر کھدائی’ کا طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس یادداشت میں ایک مسئلے پر ضرور بات کی گئی ہے، اور وہ ہے سیاسی امکان کیونکہ "اسرائیل کے گرد عرب ممالک ایسی کسی بھی نہر کی کھدائی کی مخالفت کریں گے۔”
یہ یادداشت ایک ایسے وقت میں پیش کی گئی تھی جب امریکی اٹامک انرجی کمیشن "پُر امن نیوکلیئر دھماکوں” کے استعمال پر کام کر رہا تھا تاکہ انہیں کھدائی کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ کچھ ایسا ہی منصوبہ وسطی امریکا میں ایک نہر کھودنے کے لیے بھی تجویز کیا گیا تھا۔
لیکن یہ منصوبہ محض تجربات کی حد تک ہی رہی اور امریکا نے 27 تجربات میں پایا کہ اس نے علاقے کی ارضی صورت کو کافی متاثر کیا ہے۔ یہاں تک کہ اٹامک انرجی کمیشن نے 1974ء میں اس منصوبے کو ترک کر دیا۔
البتہ لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری اب بھی موجود ہے اور اس کی ویب سائٹ کہتی ہے کہ وہ "ملک کے نیوکلیئر ڈیٹرنٹ کی حفاظت، تحفظ اور بھروسہ مندی کو یقینی بنانے” سے وابستہ ہے۔
یہ یادداشت ‘سوئز بحران’ کے کچھ ہی عرصہ بعد پیش کی گئی تھی، جس کی وجہ سے نہرِ سوئز جیسی اہم آبی گزرگاہ کے کنٹرول پر ایک بڑا تنازع کھڑا ہوا تھا اور اسے آج بھی سرد جنگ کے زمانے کا ایک اہم واقعہ سمجھا جاتا ہے۔