‘خونخوار پہاڑ’ کے2 آٹھ ہزار میٹرز سے بلند پہاڑوں میں واحد چوٹی ہے کہ جس کو کبھی سردیوں کے موسم میں سر نہیں کیا جا سکا۔ 8,611 میٹرز بلند اس پہاڑ پر موسم اور حالات اتنے سخت ہوتے ہیں کہ اسے ‘خونخوار پہاڑ’ کہا جاتا ہے۔ یہ نام معروف امریکی کوہ پیما جارج بیل نے دیا تھا، جنہوں نے 1953ء میں اسے سر کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ "یہ خونخوار پہاڑ ہے، جو آپ کو مارنے کی کوشش کرتا ہے۔”
اب رومانیہ کے 38 سالہ ایلکس گیون اور اٹلی کی 34 سالہ تمارا لنگر اس عظیم چیلنج کو قبول کر رہے ہیں، وہ نہ صرف سردیوں کے موسم میں کے2 سر کرنے کی کوشش کریں گے بلکہ یہ کارنامہ مصنوعی آکسیجن کے استعمال کے بغیر کریں گے۔ اس مہم میں ان کے ساتھ 24 مزید کوہ پیما بھی ہوں گے کہ جن کی اکثریت یورپی ہے۔
دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سے تقریباً 200 میٹر چھوٹا کے2 سردیوں کے علاوہ بھی کوہ پیمائی کے لیے دنیا کے مشکل ترین پہاڑوں میں شمار ہوتا ہے اور اسے آکسیجن کے بغیر سر کرنا تو اور بھی زیادہ مشکل ہے۔ گیون کہتے ہیں کہ چیلنج بہت بڑا ہے کیونکہ ہم مصنوعی آکسیجن استعمال نہیں کریں گے۔ اس طرح آکسیجن سلنڈرز لے کر کوہ پیمائی کرنا تو دھوکا دینا ہے۔ 8,000 میٹرز پر آکسیجن سلنڈر کے استعمال کا مطلب ہے کہ آپ 3,500 میٹر کی بلندی پر ہیں۔
کئی عظیم گلیشیئرز اور بدترین موسمی حالات میں گھرے کے2 پر برفانی تودے اور پتھر گرتے رہتے ہیں اور سردیووں کے موسم میں تو کسی بھی کامیاب مہم کے لیے تکنیکی مہارت اور بھرپور عزم کے علاوہ کچھ کچھ قسمت بھی درکار ہوگی۔
لنگر نے 2014ء میں کے2 سر کیا تھا، اور وہ بغیر آکسیجن کے یہ کارنامہ انجام دینے والے تاریخ کی دوسری اطالوی خاتون بنی تھیں۔ لیکن سردیوں کے موسم میں کے2 سر کرنا ایک بالکل ہی الگ ہے کہ جہاں درجہ حرارت منفی 50 درجہ سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔
پھر مہم پر کوہ پیماؤں کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی ماہرین کو بھی تشویش میں مبتلا کر رہی ہے، جن کا کہنا ہے کہ اس چوٹی پر زیادہ کوہ پیماؤں کا جانا ان کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
کوہ پیمائی کے حوالے سے صحافت کرنے والے ایلکس ٹکسکن کہتے ہیں کہ سردیوں کے موسم میں ایورسٹ پر کئی دن ایسے آتے ہیں جن میں دھوپ نکلتی ہے، لیکن کے2 پر ایسا نہیں ہے۔ گزشتہ سال جنوری میں انہیں کے2 کے بیس کیمپ پر بھی ‘اگلو’ بنانا پڑے تھے، جس کی سردیوں میں ایورسٹ پر ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ کے2 کبھی سردیوں میں سر نہیں ہو پایا، آخر اس کی کچھ وجوہات تو ہیں۔
اطالوی کوہ پیما سائمن مورو کہتے ہیں کہ اس مہم کے زیادہ تر کوہ پیما صرف بیس کیمپ تک ہی جا پائیں گے، ایک دو ہفتے وہاں گزاریں گے، مشکلات اٹھائیں گے اور گھر آ جائیں گے۔ فیس پوری دیں گے لیکن صرف 5 فیصد سروسز حاصل کر کے لوٹیں گے۔ کاروباری لحاظ سے تو یہ زبردست ہے، لیکن کوہ پیمائی کو دیکھیں تو اچھا نہیں۔
پھر چند کوہ پیماؤں کو ایورسٹ جیسے کسی سانحے کا خدشہ بھی ہے۔ 1996ء میں ماؤنٹ ایورسٹ پر ایک سانحہ رونما ہوا تھا۔ آٹھ کوہ پیما چوٹی سے واپس آتے ہوئے برفانی طوفان میں پھنسے اور وہیں پر جان دے بیٹھے۔ کوئی نہیں چاہے گا کہ کے2 پر ایسا ہو، لیکن جس طرح اس مہم کی تیاری کی جا رہی ہے، وہ ایورسٹ سانحے سے ملتی جلتی ہے۔ بلاشبہ اس میں 8 ہزار میٹرز سے زیادہ کی چوٹیاں سر کرنے والے کئی کوہ پیما موجود ہیں لیکن سب ایک جیسے ماہر نہیں۔ کچھ ایسے ہیں جنہیں ہر وقت رہنمائی کی ضرورت ہوگی، کچھ ایسے ہیں جو چھوٹے گروپوں کی صورت میں بغیر آکسیجن کے سر کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ اس لیے خطرہ بہرحال موجود ہے۔
جولائی 2018ء تک کے2 کو 367 مرتبہ سر کیا جا چکا ہے، جبکہ اس کوشش کے دوران 86 کوہ پیماؤں کی جان بھی گئی۔
بہرحال تمام خطرات کے باوجود اگر سب کچھ توقعات کے مطابق ہوا تو گیون اور لنگر وسط فروری تک تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیں گے۔ یاد رہے کہ آج تک سردیوں کے موسم میں کسی خاتون نے 8 ہزار میٹرز سے زیادہ بلند کوئی چوٹی سر نہیں کی، اس لیے لنگر کے پاس تو ایک تاریخی موقع ہے۔