وفاقی زیر برائے منصوبہ بندی اس عمر کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی تیسری لہر سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنی ہوگی۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اجلاس کے بعد پریس بریفنگ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے فیصلے عوام کے لیے ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں ساڑھے 5 کروڑ لوگ معاوضے کے عوض کام کررہے ہیں۔ عالمی وبا کورونا سے ہر شعبہ متاثر ہوا، 2 کروڑ سے زائد لوگوں نے کورونا میں روزگار کے ختم ہونے کی شکایت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا کے بعد وزیراعظم نے صحت کے شعبے کو ترجیح دی ہے اور کورونا سے متاثرہ بے روزگار افراد پر بھی توجہ دی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ کورونا نے نہ صرف پاکستان بلکہ ترقی یافتہ ممالک کو بھی متاثر کیا، بھارت میں کورونا کی وجہ سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوئے۔ دوسری طرف برطانیہ، امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں اب بھی اموات ہو رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ویکسین آنے میں وقت لگے گا، ویکسین آنے تک ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ احتیاط کریں۔ پہلے کہا جاتا رہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن نہ کیا جائے لیکن پھر کورونا کے دوران لاک ڈاؤن کرنے کی صدائیں آتی تھیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کورونا میں ہر شخص نے سختی سے گزارا کیا، کورونا میں بہت سے لوگوں نے جمع پونجی سے اخراجات کیے۔ ہمیں اندازہ تھا کہ لوگوں کو کورونا نے مشکلات سے دوچار کیا اور ہم نے کورونا سے نمٹنے کے لیے ہی سخت فیصلے عوام کی فلاح کے لیے کیے۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران 72 فیصد لوگ صنعتوں سے بے روزگار ہوئے، 66 فیصد لوگ ٹرانسپورٹ کے لوگوں کی ملازمت ختم ہوگئی تھی۔ اسد عمر نے بتایا کہ 50 فیصد لوگ کہتے ہیں کورونا میں کھانے پینے کی اخراجات میں کمی آئی۔ اب وبا کے ساتھ زندگی گزارنے کی عادت ہوگئی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے لوگوں کی صحت کے ساتھ روزگار کو بھی مد نظر رکھ کر فیصلے کیے ہیں۔ کورونا وبا کے دوران پاکستان کی پالیسیوں کی عالمی سطح پر پذیرائی ہوئی۔ پاکستان نے مکمل لاک ڈاؤن کے بجائے سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کو اپنایا۔ خطے کے بعض ملکوں میں سخت لاک ڈاؤن سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوا۔